چھوڑ جانے کو مری راہ میں آتا کیوں ہے
آ ہی جاتا ھے تو پھر چھوڑ کے جاتا کیوں ھے

آسرا اجنبی دیوار بھی دے دیتی ھے
یار شانے سے مرا ہاتھ ہٹاتا کیوں ھے

روز ہاتھوں سے ترے گر کے فنا ہوتا ھوں
دشتِِ ہستی سے مرا نقش اٹھاتا کیوں ھے

کس سے پوچھوں کہ شبِ ماہ نہ آنے والا
چاندنی بھیج کے اُمّید جگاتا کیوں ہے

میں تو ویسے ہی تجھے مٹ کے ملا کرتا ھوں
دل کے شیشے سے مرا عکس مٹاتا کیوں ہے

رائگانی میں کئی بار خدا سے پوچھا
میں اگر کچھ نہیں بنتا تو بناتا کیوں ہے

اب تو اُس آخری انکار کو مدت گذری
اب بھی اُس حسنِ جفا کیش سے ناتا کیوں ہے

لے پھر اب خود ہی اُٹھا قضیہء دین و دنیا
میری جب سُنتا نہیں ، بیچ میں لاتا کیوں ہے

Comments