‏شبِ فرقت بسر نہیں ہوتی
نہیں ہوتی سحر نہیں ہوتی

شور فریاد تا فلک پہنچا
مگر اس کو خبر نہیں ہوتی

ہے یقین وہ نہ آئیں گے پھر بھی
کب نگہ سوئے در نہیں ہوتی

غلط انداز ہی سہی ، وہ نظر
کیوں مرے حال پر نہیں ہوتی

ہم کبھی نہ مانیں گے
دل کو دل کی خبر نہیں ہوتی

Comments